Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۳(کتاب الطہارۃ)
1 - 166
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ط

رسالہ ضمنیہ

الدقۃ والتبیان لعلم الرقۃ والسیلان (۱۳۳۴ھ)

(پانی کی) رقّت وسیلان کا واضح بیان (ت)



بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
اب فقیر بتوفیق الملک القدیر عزجلالہ اسباب ثلثہ پر کلام اور  ہر  ایک کے متعلق ابحاث مہمہ ذکر کرے۔

زوال طبع اس میں چند ابحاث ہیں:
بحث اوّل معنی طبیعت۔

اقول: طبع آب سے مراد اس کا وہ وصف ہے کہ لازم ذات ومقتضائے ماہیت ہو جس کا ذات سے تخلف ممتنع ہو
وقال السیدان ط و ش طبعہ ای وصفہ الذی خلق اللّٰہ تعالٰی علیہ ۱؎
 (سید طحطاوی اور سید شامی نے فرمایا پانی کی طبیعت یعنی اس کا وہ وصف جس پر اللہ تعالٰی  نے پانی کو پیدا کیا ہے۔ ت)
 ( ۱؎ ردالمحتار    باب المیاہ    مصطفی البابی مصر    ۱/۱۴۵)
اقول:ھذا(۱) یشمل اللون والطعم والریح ولم یعدھا احدمن الطبع ویلزمہ(۲) ان لایجوز الوضو ء بما انتن اوتغیر لونہ اوطعمہ بطول المکث مثلا لخروجہ اذن عن طبع الماء وھو خلاف اجماع من یعتدبہ وکذا(۳) یردہ اجماع اصحابنا المذکور فی ۱۱۶ الی غیر ذلک (عـہ) من الاستحالات۔
میں کہتا ہوں کہ یہ تعریف رنگ، ذائقہ اور بُو پر مشتمل ہے حالانکہ کسی نے ان چیزوں کو پانی کی طبیعت میں شمار نہیں کیا اس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ ایسے پانی سے وضو جائز نہ ہو جو بدبودار ہوچکا ہو یا زیادہ دیر پڑے رہنے کی وجہ سے اس کا رنگ اورذائقہ تبدیل ہوچکا ہو کیونکہ اس وجہ سے وہ پانی اپنی طبیعت سے خارج ہوچکا ہے حالانکہ یہ بات معتبر اجماع کے خلاف ہے اور یوں ہی یہ بات ہمارے اصحاب (احناف) کے اجماع جس کا ذکر بحث ۱۱۶ میں ہوچکا ہے، سے مردود ہے، اس قسم کے بہت سے استحالات لازم آئیں گے۔ (ت)
 (عـہ)منھاان لایجوزالوضوء بماء حار ولابارد ولو باثر ریح لانہ لم یبق علی وصفہ الذی خلق علیہ ونقول لایخلواان الماء بدوخلقہ حارا اوباردا اومعتدلا وایاما کان لم یجز الوضوء بالباقیین الا ان یقال ان المراد بالوصف الثلثۃ لاغیر فانھا ھی المتعارف فیما بینھم عنداطلاق اوصاف الماء ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)

ان محالات میں سےایک یہ کہ لازم آئے گا کہ گرم یا ٹھنڈا پانی، خواہ ہوا سے سرد ہو،سے وضو جائز نہ ہو کیونکہ ایسی صورت میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ پانی اپنی اصلی طبیعت سے خارج ہوچکاہے کیونکہ اس وصف پر باقی نہ رہا جس پر اس کو پیداکیاگیا تھا یا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ پانی کی پیدائش گرم تھی یا سرد تھی یا معتدل تھی جو بھی قرار دی جائے تو دوسری دو صورتوں میں وضو جائز نہ ہو الّا یہ کہ یوں کہا جائے کہ پانی کی طبیعت صرف تین وصف رنگ، بُو اور ذائقہ ہیں اور کوئی وصف گرم، سرد وغیرہ معتبر نہیں ہے کیونکہ پانی کے یہی تین وصف متعارف ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ پانی کے جاوصاف کا جب ذکر ہوتا ہے تو یہی تینوں اوصاف متعارف ہوتے ہیں ۱۲ منہ غفرلہ (ت)
بحث دوم : طبع آب کی تعیین،عامہ  علماء نے   اسے رقت(۱) وسیلان سے تفسیر کیا اور یہی صحیح ہے ایضاح وبحر و صدرالشریعۃ وشلبیہ ومجمع الانہر وامداد الفتاح وغیرہا کتب کثیرہ میں ہے
ھو الرقۃ والسیلان ۱؎
 (طبعِ آب رقت وسیلان ہے۔ ت)
(۱؎ شلبیہ علی التبیین کتاب الطہارۃ    الامیریہ ببولاق مصر    ۱/۱۹)
اسی طرح فتح وغیرہ سے مستفاد یہی فروع میں بہت کلمات کا مفاد،
کما یظھر بمراجعۃ ماتقدم واقتصر القھستانی و عبدالحلیم علی الرقۃ وعلیہ مشی فی الغنیۃ عندذکرالضابطۃ کمامر فی ۲۸۷ وتراہ مفادکلام الاکثرین فی الفروع اذا تذکرت ماسلف اقول وھو حسن وجیہ لماقدمناان الرقۃ تستلزم السیلان ومنھم من اقتصر علی السیلان کالزیلعی والحلیۃ جوالدرر فی ذکر الضابطۃ۔
جیساکہ گزشتہ بحثوں کے پیش نظر ظاہر ہوتا ہے قہستانی اور عبدالحلیم نے صرف رقت کو پانی کی طبیعت قرار دیاہے، غنیہ نے بھی ضابطہ کو ذکر کرتے ہوئے  اسی کو اپنایاہے جیسا کہ بحث ۲۸۷ میں گزرا، اور جب گزشتہ ابحاث کو تُو یاد کرے تو تجھے معلوم ہوگا کہ اکثر حضرات کے کلام کا ماحصل یہی ہے۔میں کہتا ہوں کہ یہی خوبصورت وجہ ہے کیونکہ ہم نے پہلے ذکر کیاہے کہ رقت سیلان کو مستلزم ہے، اور بعض حضرات نے صرف سیلان کو پانی کی طبیعت قرار دیا ہے جیسا کہ زیلعی اور حلیہ نے کہاہے اور درر نے اس کو ضابطہ میں ذکر کیا ہے۔ (ت)
اقول:یحمل علی السیلان المعھود من الماء فیستلزم الرقۃیدل علیہ قول الغنیۃ طبعہ سرعۃ السیلان ۲؎ اھ
میں کہتا ہوں کہ اس قول کو پانی کے معینہ سیلان پر محمول کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ سیلان رقّت کو مستلزم ہے اس پر غنیہ کا یہ قول دلالت کرتا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پانی کی طبیعت جلد بہنا ہے اھ
 ( ۲؎ غنیۃ المستملی    احکام المیاہ        سہیل اکیڈمی لاہور    ص۹۰)
فھذہ مسالک تؤل الی شیئ واحد لکن ثمہ مایخالفھا ففی الدر والدرر طبعہ السیلان والارواء والانبات ۳؎ اھ
یہ تمام مسالک ایک ہی چیز کی طرف راجع ہیں مگر یہاں ان کے مخالف بھی قول ہے جیسا کہ دُر اور دُرر میں ہے کہ پانی کی طبیعت سیلان، سیرابی، اور اگانا ہے۔
 (۳؎ درمختار         باب المیاہ        مجتبائی دہلی        ۱/۳۷)
ومثلہ فی چلپی علی صدرالشریعۃ واقتصرعلیہ الوانی فی حاشیۃ الدررمن الاخیرین علی الانبات قال نوح افندی ثم السید الازھری ثم ط ثم ش اقتصر علیہ لاستلزمہ الارواء دون العکس فان الاشربۃ تروی ولاتنبت ۱؎ اھ
اور صدرالشریعۃ کے حاشیہ پر چلپی میں بھی   اسی طرح ہے اور دُرر کے حاشیہ میں الوانی  نے صرف انبات (اگا نے) کو ہی لیا ہے، نوح آفندی پھر سید ازہری اور پھر طحطاوی اور شامی نے کہا ہے کہ الوانی نے اس لئے صرف انبات کو لیا ہے اور سیرابی کا اعتبار نہیں کیا کیونکہ انبات کو سیرابی لازم ہے اور سیرابی کو انبات لازم نہیں ہے کیونکہ شربت سیراب تو کرتے ہیں لیکن انبات نہیں کرتے اھ
 ( ۱؎ ردالمحتار    باب المیاہ        مجتبائی دہلی        ۱/۱۴۵)
وفی الجوھرۃ طبعہ الرقۃ والسیلان وت  سکےن العطش ۲؎ اھ
اور جوہرہ میں ہے کہ پانی کی طبیعت رقّت، سیلان اور پیاس بجھانا ہے اھ
 (۲؎ الجوہرۃ النیرۃ    کتاب الطہارۃ    امدادیہ ملتان        ۱/۱۴)
وفی خزانۃ المفتین عن الاختیار شرح المختار طبع الماء کونہ سیالا مرطبامسکنا للعطش ۳؎ اھ
اور خزانۃ المفتین میں الاختیار شرح المختار سےمنقول ہے کہ پانی کی طبیعت سیال تَر کرنا اور پیاس بجھانا ہے اھ
 (۳؎ اختیار شرح مختار    یجوز الطہارۃ فی الماء    مصطفی البابی مصر    ۱/۱۴)
وفی مراقی الفلاح طبعہ ھو الرقۃ والسیلان والار واء والانبات ۴؎ اھ
اور مراقی الفلاح میں ہےکہ پانی کی طبیعت رقت، سیلان، سیراب کرنا اور اگانا ہے اھ۔
 ( ۴؎ مراقی الفلاح    کتاب الطہارۃ    الامیریہ مصر        ص۱۵)
قال السید ط فی حاشیتہ الرقۃ والسیلان اقتصر علیھما فی الشرح (عـہ ) وھو الظاھر لان الاخیرین لایکونان فی ماء البحر الملح ۱؎ اھ
سید طحطاوی  نے اس کے حاشیہ میں فرمایا کہ انہوں نے شرح میں صرف رقّت اور سیلان کو ہی ذکر کیاہے کیونکہ ظاہر یہی ہے اس لئے کہ آخری دونوں یعنی سیراب کرنا اور انبات (اگانا)سمندر کے نمکین پانی میں نہیں پائے جاتے ا ھ کیونکہ آخری دو وصف سمندری پانی میں نہیں ہوتے اھ
 ( ۱؎ طحطاوی علی مراقی الفلاح کتاب الطہارت    نور محمد کارخانہ تجارت کراچی ص۱۵)
 (عـہ)اقول ومن(۱) العجب اقتصار البنایۃ علی الارواء اذقال طبع الماء کونہ مرویا لانہ یقطع العطش قال وقیل قوۃ نفوذہ ۵؎ اھ

اقول: تعجب ہے کہ بنایہ  نے صرف سیرابی پر اکتفا کیاہے جہاں انہوں نے کہا ہے کہ پانی کی طبیعت سیراب کرنا ہے کیونکہ اس سےپیاس بجھتی ہے اور انہوں نے کہاکہ بعض  نے پانی کو قوتِ سرایت کو کہا ہے اھ
 (۵؎البنایۃ     باب الماء الذی یجوز بہ الوضوء    المکتبۃ الامدادیۃ مکۃ المکرمہ     ۱/۱۸۸)
قول: ھذا ھو قضیۃ رقتہ وسیلانہ فالعجب(۲) تزییف ھذا واختیار طبع لاتعلق لہ بماھنا قال وقیل کونہ غیر متلون ۶؎ اھ
میں کہتا ہوں کہ یہ تو پانی کی رقت اور سیلان کا معاملہ ہے، اس کو کمزور بنانااور ایسی چیز کو طبیعت بتانا جس کا یہاں کوئی تعلق نہیں ہے تعجب انگیز بات ہے انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ بعض  نے پانی کی طبیعت غیر متلون (بے رنگ) ہونا بتایا ہے اھ
 ( ۶؎البنایۃ     باب الماء الذی یجوز بہ الوضوء    المکتبۃ الامدادیۃ مکۃ المکرمہ     ۱/۱۸۸)
اقول: ھذا خلاف المشھود والمشہور ودوار(۳) فی الکتب ذکر لون الماء وقد(۴) جاء فی مرسل صحیح رواہ الامام الطحاوی عن راشد ابن سعد عن سید المرسلین صلی اللّٰہ علیہ وسلم الماء لاینجسہ شیئ الا ماغلب علی ریحہ اوطعمہ اولونہ ۳؎
میں کہتا ہوں کہ یہ بات مشاہدہ اور شہرت دونوں کے خلاف ہے اور کتب میں پانی کے رنگ کا باربار ذکر ہے امام طحاوی  نے صحیح مرسل کے طور پر راشد بن سعد سےروایت کیا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام  نے فرمایاکہ پانی کو ناپاک کر نے والی کوئی چیز نہیں ماسوائے اس کے جو اس کے ذائقہ، بُو اور رنگ پر غالب ہوجائے
 ( ۳؎شرح معانی الآثار،    کتاب الطہارۃ     ۱/۱۹)
وھو فی ابن ماجۃ موصولا من حدیث راشد بن سعد عن ابی امامۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ان الماء طھور ولا ینجسہ الا ماغلب علی ریحہ وطعمہ ولونہ ۴؎
اور یہ حدیث ابن ماجہ میں موصولاً راشد بن سعد  نے ابی امامہ رضی اللہ عنہ سےروایت کی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام  نے فرمایا کہ پانی پاک کرتا ہے اس کو ناپاک کر نے والی صرف یہی صورت ہے کہ جب کوئی چیز اس کی بُو، ذائقہ اور رنگ پر غلبہ پالے۔
 (۴؎سنن ابن ماجہ     ابواب الطہارۃ    ص۴۰)
قال وقیل مایبقی لہ اثر الغلیان ۵؎
 (انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعض  نے کہاکہ پانی کی طبیعت یہ ہے کہ اس میں اُبلنے کی صلاحیت باقی ہو)
 (۵؎البنایۃ     ۱/۱۸۸ )
والاخراج علی طبعہ ان لایبقی لہ اثر الغلیان اھ کذا وھو فی نسخۃ سقیمۃ جدا ولعلہ مایقبل ای طبعہ ان یرتفع وینخفض عندالاغلاء اقول وھو ایضا من اثر الرقۃ والسیلان واللّٰہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)
اور اس کو طبیعت سےخارج کر نے کیلئے ضروری ہے کہ اس میں ابلنے کا اثر باقی نہ رہے اھ کمزور ترین نسخے میں ایسےہی ہے، ہوسکتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہو کہ پانی کی طبیعت یہ ہے کہ اُبالنے میں وہ بلند وپست ہوسکے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ بھی رقت وسیلان کا اثر ہے واللہ اعلم ۱۲ منہ غفرلہ (ت)
وبہ تُعقب علی الدرر فاجاب الوانی ثم السادۃ ابو سعود و ط و ش ان فی طبعہ انباتاالا ان عدم انباتہ لعارض کالماء الحار ۲؎ اھ
اور اس سےدرر پر تعقیب کی گئی ہے، تو اس کا جواب الوانی، ابو السعود، ط اور ش  نے یہ دیا کہ اس کی طبیعت میں انبات ہے مگر اس کا عدمِ انبات کسی عارض کی وجہ سےہے، جیسےگرم پانی میں ہوتا ہے اھ
 (۲؎ ردالمحتار        باب المیاہ مصطفی      البابی مصر۱/۱۴۵)
Flag Counter